‫پانی کی ری سائکلنگ اورمینجمنٹ کے لئے قانون سازی کا مطالبہ

حبیب یونیورسٹی کراچی میں کوڈ بلیو کے نام سے ہونے والی کانفرنس کے موقعہ پر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جناب وجیہ الدین نے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اونچی عمارات میں پانی کی ریسایؑکلنگ اور ٹریٹمینٹ کو ریگولرائز کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور گرے اور سیاہ پانی کو علیحدہ کیا جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زہریلے مواد کو بے دریغ نالوں اور گٹروں میں بہانے سے روکنے کے لیے پالیسی ترتیب دی جائے اور بنا ٹریٹمنٹ کے سیوریج کو سمندر میں بہانے پر سخت جرمانے عائد کیے جائیں۔

یہ ان اقدامات میں شامل تھے جو کہ پانی کے معروف ماہرین،پالیسی ساز اور شہریوں نے پانی کے موضوع پرحبیب یونیورسٹی میں ۹ مارچ کو ہونے والی پورے دن پر مشتمل کانفرنس میں تجویز کیے۔یہ کانفرنس سٹیزنز فار چینج ،ڈاٹا کمیونیکیشن اینڈ کنٹرول اور دھنانی اسکول فار انجینیئرنگ اینڈ سایئنسز کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔

مقررین نے اظہار کیا کہ کراچی میں پانی کی تقسیم کا ساٹھ فیصد نظام کسی بھی قسم کی پیمائش اور کنٹرول کے بغیر ہے۔ پائپ لائنوں سے ہونے والے ضیاع اور چوری نے پانی کے ٹینکروں کے وسیع پھیلاؤ کو جنم دیا ہے جو کہ پانی کی تقسیم کا ایک مہنگا اور غیر موثر طریقہ کار ہے۔ اس کے حل کے لیے پانی کی بوسیدہ پائپ لائنوں اور جوڑوں کو تبدیل کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ جدید الیکٹرانک میٹرنگ اور وائرلیس ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کی تقسیم کا تعین کرنا ہو گا۔

کانفرنس کے پینالسٹ کی فہرست میں سابق میئر کراچی فاروق ستار،سینیٹر تاج حیدر، دیگر سیاست دان اور متعلقہ حکومتی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔ پینل کے دیگر ارکان میں نعیم عارف جنرل مینیجر پراجیکٹس واپڈا، اسداللہ خان مینیجنگ ڈائریکٹر ادارہ فراہمی و نکاسئی آب کراچی، سندھ اریگیشن اور ڈرینج اتھارٹی کی فرزانہ عباسی اور ڈاکٹر رحیم سومرو سکریٹری جنگلات اور جنگلی حیات شامل تھے۔ کراچی میں پانی کی کمی اور پانی کی اضافی فراہمی کی سکیموں میں تاخیر کے معاملات پر انتہائی گرم جوشی سے بحث ہوئی جسے ملٹی نیٹ کے چیف ایگزیکٹو عدنان اژدر نے نہایت چابکدستی سے کنڈکٹ کیا

شرکاء نے مطالبہ کیا کہ حکومتی واٹر کمیشن کی رپورٹ پر،جو جون ۲۰۱۸ میں ریلیز کی گئی تھی،من و عن عملدرامد کیا جائے۔ پانی کا نوے فیصد سے زائد استعمال زراعت میں ہوتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر استعمال ہونے والا طریقہ ،فلڈ اریگیشن،انتہائی غیر موثر اور زیاں کا باعث ہے اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ زراعت کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جائے جن میں فصل کا چناؤ اور آب پاشی کے دیگر طریقے مثلاً ہائڈرو پونکس، سپرینکلر، ڈرپ اور ٹیپ اریگیشن شامل ہیں۔

کانفرنس میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ قومی پالیسیوں کی تشکیل میں قومی اور صوبائی سطح پر پارلیمنٹری سب کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی۔

نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے شرکاء میں ڈاکٹر ارم ستار شامل تھیں ۔ ارم ستار امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے مقالے ،انڈس کے پانیوں کی مینجمنٹ اور ریگولرائزیشن کا زکرکیا ۔ داکٹر شوکت حمید سابق ممبر پلاننگ کمیشن نے مختلف جدید ٹیکنالوجیز کا زکر کیا جس میں لیزر کی مدد سے زمین ہموار کرنا اور تابکار آئسوٹوپس کی مدد سے پانی کی نقشہ گری شامل تھے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ گنا،چاول اور کپاس کو دوسری فصلوں کے مقابلے میں پانی کی کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ فصلیں ایسے جغرافیائی علاقوں کے لئے زیادہ موزوں ہیں جہاں پانی وافر مقدار میں مہیا ہو۔

رافع احمد، جو کہ ہائڈرو کون کے چیف ایگزیکٹیو ہیں،نے سندھ اور بلوچستان کے آبی ذخائر کو دوبارہ بھرنے کی اہمییت پر زور دیا۔ انہوں نے زراعت کے جدید طریقوں کو اپنانے اور تقسیم آب کے نظام کی نقشہ کشی کا بھی مطالبہ کیا۔ رافع احمد نے کراچی میں پانی کی تقسیم کے بوسیدہ نظام کے مسئلے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ سعود ہاشمی نے دوسرے ایسے ملکوں کے تجربات کا زکر کیا جہاں پانی کی قلت ہے جن میں اسرائیل،بھارت اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ انہوں نے مائکرو لیول پر الیکٹرونکس کی مدد سے ڈاٹا حاصل کرنے اورپانی کے نظام کی انٹیگریٹڈ مینجمینٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس میں مزید سیشن بھی شامل تھے جن میں پانی کا بنیادی ڈھانچہ اور ٹیکنالوجی،شہری پانی کی تقسیم اور مینجمینٹ، نکاسی آب کی مینجمنٹ اور پانی کی بچت کی آگاہی شامل تھے۔ ان سیشنز میں طالب علموں اور حاضرین نے نہایت گرم جوشی سے حصہ لیا۔ ان سیشنز کی قیادت سرگرم شہری کارکنان نے کی جن میں نعیم صادق، حمید دھاگیہ، آفیہ سلام، توفیق پاشا معراج، فرحان انور، دانیہ خالد شامل تھے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کے انجینئر سہیل احمد اور صوفیہ حسنین بھی اس کا حصہ تھے۔

کانفرنس کے کنوینر سمیر ہود بھائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگلی دہائیوں میں بلوچستان اور تھر کے صحرا پاکستان کی نمو کی نئی جہتیں بن جائیں گے جہاں نئی ٹیکنالوجیز ، جیسا کہ گرافین اور نمکیاتی زراعت کی مدد سے پاکستان کو عطا کردہ قدرتی اثاثوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔جن میں خاص طور پر گیارہ سو کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی،وافر شمسی توانائی اور ہوائی کاریڈور شامل ہیں جن کی مدد سے توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکیں گی اور ساحل سے متصل صحرا کو زراعت کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

اس کانفرنس نے واقعی شہریوں کو ایک موقعہ فراہم کیا جہاں انہوں نے ماہرین اور طالب علموں کے ساتھ مل کر پاکستان کو پیش ہمہ جہتی مسائل کا حل تلاش کیا۔

کانفرنس کی تفصیلات http://www.codeblueconf.com پر دستیاب ہیں۔